قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کو اوہام و تخیلات ، فسادات و خرافات اور
جمود و تعطل سے آزاد کرکے علم ،عقل ، تجربہ اور تدبر سکھاتی ہے، اور نبی
کریم ؐ نے ہمیشہ متوازن اور آسان راہ اختیار کرنے کی تعلیم دی اور دنیا کو
بتایا کہ حسب و نسب ، امارت و غربت اور قومیت و وطنیت ،نفاذ عدل میں مانع
نہ ہونے پائے۔ اسی لئے موجود مشکلات کا حل سیرت نبوی میں موجود ہے جس پر
عمل کرنا اور عام کرنا ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب اے ایم اقبال
انجینئر نے بیدر میں بعد نمازِ مغرب اپنے خطاب کے دوران ایک کثیر دینی و
اصلاحی اجتماع میں کیا۔ اور بتایا کہ معاشرتی و اخلاقی بیماریوں کے خاتمہ
کیلئے خدا فراموشی کی روش ترک کرنا ضروری ہے تب ہی سیاسی ،سماجی ، تہذیبی و
ثقافتی میدانوں میں عدل و توازن بر قرار رہ سکتاہے اور افراط وتفریط سے
محفوظ رہ سکتے ہیں۔اسی لئے ہمیں چاہئے کہ اعتدال اور اقتصادکی راہ اپنا ئیں
’عدل‘ احسا ن و ایثار کی صفت پیدا کریں ۔عدل یعنی ہر حق دار کو اُسکا حق
ادا کریں ، احسان عد ل سے آگے کا درجہ ہے یعنی اپنے حق سے کم پر راضی ہونا
اور دوسروں کو ان کے حق سے زائد
دینا، ایثار یعنی اپنے ذاتی فائدے کو پسِ
پشت ڈال کر دوسروں کو دینے کا جذبہ رکھنا ،حافظ نعیم نے خطاب کرتے ہوئے
بتایا کہ سیاسی، سماجی ،تہذیبی و ثقافتی میدانوں میں انصاف قائم کرنے کیلئے
پہلے ہر شخص اپنی شخصیت کو پہچانے پھر اپنا تعلق خدا سے کیسا ہے اُس پر
غور و فکر کرے ۔اسلام نے جرم اور گناہ کی تشہیر سے منع کیاہے تاکہ لوگ جرم و
گناہ کے متعلق بے حس نہ ہوجائیں‘ لیکن آج کل کارپوریٹ میڈیا استعمار کا سب
سے طاقت ور آلہ ہے‘جبکہ کارپوریٹ میڈیا کا بھی یہ فرض ہے کہ مسلمانوں کے
متعلق پیش کی جانے والی خبریں اور تبصرے غیر جانبدارہوں۔ اور انھوں نے مزید
بتایا کہ اسلامی آئیڈیا لوجی ایک ایسی آئیڈیا لوجی جس کو جتنا دبائیں گے
اتنا ہی یہ ابھرے گی‘کیونکہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 32میں ہے کہ لوگ چاہتے
ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونک سے بجھادیں‘لیکن اللہ اپنے نور کو پورا
کرنے والا ہے خواہ بعض لوگ ناپسند کریں۔ موصوف نے اپنے اختتامی خطاب میں
کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اُمت مسلمہ مسائل کا شکار ہوئی اسلام کی
دعوتی طاقت ظاہر ہوئی ۔ اسی لئے ہمارے مسائل کا حل دین کی تبلیغ میں ہی
ہے۔***